Pages

Friday, 2 November 2012

دسمبر 1971


ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ھر سال جونہی دسمبر کا مہینہ قریب آ جاتا ھے۔۔۔۔ میں ذھنی کب میں مبتلا ھو جاتا ھوں، 16 دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں ھماری افواج کی ذلت آمیز شکست اور ھتھیار ڈالنا ۔۔۔۔۔ جب نہتے بنگالیوں کا قتل عام دیکھا۔ ھزاروں ھاملہ لڑکیوں کو دیکھا اور نہایت اندوھناک تصاویر دیکھیں کہ کتے بچوں کی لاشیں گھسیٹ رھے ھیں اور انکو کھا رھے ھیں تو بے حد دکھ ھوا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی آنکھوں سے وہ سیاہ توین دن بھی دیکھنا پڑا جب چرنل امیر عبداللہ خان نیازی پلٹن میدان میں بھٹھ کر ھندوستانی جرنل اڑوڑا کے سامنے شکست نامے اور ھتھیار ڈالنے کے معاھدے پر دسخط کر رھے تھے، میں کۂی دن نہ سو سکا ۔۔۔۔۔ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں جب بدنام زمانہ ایکشن شروع کیا تو اس وقت ھمارے انقلابی مرحوم شاعر حبیب جالب نے یہ قطعہ کہا تھا :
محبت گولیوں سے بو رھے ھو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رھے ھو
گماں تجھ کو کہ رستہ کٹ رھا ھے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رھے ھو
بعد میں معتبرذراںع سے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ فوج نے سو سے ذیادہ بنگالی دانشوروں کو گرفتار کر کے ڈھاکہ کے باھر فتل کرکے اجتماھی قبرستان میں دفن کر دیا تھا۔۔ جب پاکستان آیا تو مجھے پاکسانی سپاھیوں سے تفصیلات کا علم ھوا تو میرا سر شرم سے جھک گیا، رھی سہی کسر مشرف نے اپنی ھی فوج کو اپنے ھی عوام کے خلاف استعمال کر کے اور لال مسجد میں معصوم بچوں کو فاسفورس بم سے جلا کر اور مار پوری کر دی ۔ فوجی کارواي دیکھ کر جو اپنے ھی عوام کے خلاف قباھلی علاقہ میں جاری دیکھ کر دکھ ھوتا ھے۔۔۔۔۔ وہ فوج جو ذلت سے ھتھیار ڈال کر دو سال قید میں رھی ۔ جنکو میں نے ھندو فوجیوں سے ڈنڈے اور لاتیں کھاتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے محسن کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس ملک کی تایخ مین ایک سیاہ ترین باب رھے گا ۔۔۔۔۔ انہون نے جو کچھ میرے ساتھ سلوک کیا اسے احسان فراموشی ھی کہہ سکتے ھیں ۔۔۔۔۔
یہ مضمون ڈاکٹر عبدالقدیر کی کتاب 'سحر ھونے تک' سے لیا گیا ھے ۔

1 comment: